بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ رحیم
شروع اللہ کے نام پر جو بڑا مہربان
اور نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
Ye Kahani Meri apni mehnat ka natija han brai Karam koi ijazat ke bagair nakal na kare or dobara post bhi na kare shukriya 😡😡😡😡
السلام وعلیکم امید کرتا ہوں کے آپ سب خیرخریت سے ہونگے انشاء االلہ تو میں یہ ناول لکھ تو رہاہو لیکن اندر ہی اندر ڈر بھی رہا ہوں کے آپ سب کو کیسا لگے گا کیسا نہیں تو میں اپنے بارے میں بتاتا چلوں کہ میرا نام MQہیں اس کو کمپلیٹ میں ناول کے انڈنگ میں کر دو گا میری عمر22 سال ہےمجھے بچپن سے ہی لکھنے کا بہت شوق ہےمیں صرف ناول رائٹر نہیں ہو بلکہ۔میں پوئیٹری بھی لکھتا ہوں جو آپ کو اسی ناول میں انشاء االلہ نظر آجائے گی یہ کہانی ایسے کرداروں پر مشتمل ہے جو شائد ہر اس بچے میں ہر اس انسان میں ہے جو دنیا میں سب کے ہوتے ہووے بھی اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اپنی زندگی کو بس صرف ایک بوج سمجھتا ہے زندگی انسان کو ایک ایسے راستے میں لا کر کھڑا کر دیتی
ہے کے انسان چہ کر بھی اپنی منزل پر واپس نہیں آسکتا زندگی جب انسان کو کوئی خوشی دیتی ہے تو انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہیں کے اب کبھی غمی نہیں ای گی اور جب رُلاتی ہیں تو اتنا کے آس ہی چھوڑ دیتا ہیں کے اب کبھی شائد خوشی نہیں ای گی خیر کیا کر سکتے ہیں زندگی ہے جینی تو پرے گی اب آپ کو انتظار نہیں کروائےگے تو چلتے ہیں اپنے پہلے ناول کے پہلے ایپیسوڈ پر🥰🥰🥰۔
Episode 1💫🌹
🥀 اللہ ہی ہے وارث میرا 🌹
ابو بچاؤ بچاؤ ابو بھائی مار رہے ہے مجھے میں چھوٹا ہونا اس لیے کچھ نہیں کہتا آپ بڑے ہو نہ آپ دانٹو بھائی کو مجھے مارتے ہی رہتے ہیں اپنے بیٹے کو کچھ نہیں کہتے یہ ہے زاویار جو روتا ہوا الہام صاحب کے پاس اتا ہے الہام صاحب ذاویار کو روتا ہوا دیکھ کر فوراً طیش میں آجاتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے بڑے بیٹے رضوان کو غصے میں آواز دینے لگتے ہیں رضوان بھی ماتھے پر تیویریا سجائے فوراً ہی آجاتا ہے اور زاویار کو دیکھنے لگتا ہے اور کہتا ہے جی ابو اپنے بلایا مجھے، ہاں ،بلایا تمہاری ہمت کسے ہوئی زاوی کو ہاتھ لگانے کی تمہیں شرم نہیں آئی اپنے چھوٹے بھائی کو مارتے ہوئے الہام صاحب رضوان سے بولتے ہیں ایسے میں رضوان بولتا ہے نہیں نہیں ابو میں کیوں مارو گا بلکہ یہ مار رہا تھا ہارون کو میں نے تو بس سمجھایا تھا اچھا تو کسے سمجھایا تھا مار کر الہام صاحب ایسے بولتے ہی رضوان کے کندھے پر ہلکی سی چپٹ جھر دیتے ہے خبر دار جو آئندہ میرے بیٹے کو ہاتھ لگایا تو اپنے بچوں کی طرح اگر نہیں رکھ سکتے تو روب میں بھی مت رکھو اپنے میرا بیٹا لاوارث نہیں ہے ابھی زندہ ہے اُس کا باپ لیکن ابو رضوان کچھ بولتا ہی ہے تو الہام صاحب فوراً ہی اُسے خاموش کر وا دیتے ہیں اور جانے کا بولتےہے یہ دیکھ کر ذاوی کے چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ آجاتی ہے جیسے رضوان دیکھ کر اپنے دانت پستا ہوا خاموشی سے وہاں سے چلا جاتا ہے جب زاوي یہ دیکھتا ہے تو اُسے تھورا بورا بھی لگتا ہیں کے شائد بھائی اس سے ناراض ہوگئے ہے ارے میاں جی اپ نے یہ کیا کیا اس کا بڑا بھائی ہے کیا ہوگیا جو دانٹ دیا تو اتنے میں یہ سب دیکھتی ہوئی عمرین بیگم وہاں آجاتی ہیں اور بولتی ہیں ارے ایسے کیسے کوئی بھی ائے گا اور میرے زاوی کو مارنے لگ جائے گا الہام صاحب اپنی بیگم کو دیکھ کر بولتے ہے وہ کوئی نہیں آپکا اپنا ہی پہلا اور بڑا بیٹا ہے زاویار ا پنے ماں باپ کو بولتا ہوا دیکھ واہ سے چلا جاتا ہے کیا کرو بیگم زاوی میرا سکون ہے میرا عشق ہے اس کے آگے میں سب کچھ بھول جاتا ہوں سب رشتے سب کچھ یہ کہہ کر الہام صاحب مسکرانے لگ جاتے ہیں اور ساتھ ہی عمرین بیگم بھی مسکرا دیتی ہے یہ کہانی لاہور کے ایک چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے محلے کے 10مرلہ پرمشتمل گھر کی ہے اس گھر میں انٹر ہوتے ہی سامنے سیڑھیاں ہے اور لیفٹ سائڈ پر ایک چھوٹا سا صحن صحن کے ساتھ ہی ایک کمرہ ہے جو رضوان اور ماریہ کا ہے سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہی پھر ایک اور صحن اتا ہے اس صحن کے تھوڑے فاصلے پر ہی ایک اور کمرہ ہوتا ہے جو اعظم کا ہوتا ہے اعظم کے کمرے کے سامنے ہی ایک اونچا اور صحن ہوتا ہے جہاں ایک اور کمرہ ہوتا ہے اور وہ کمرہ الہام صاحب اور امرین بیگم کا ہوتا ہے اس گھر کے سربراہ ہے الہام صاحب جن کی بیگم کا نام عمرین ہے انکی پانچ الادے ہیں بڑی بیٹی، شازیہ الہام، جن کی دو اولادے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور دوسرا بیٹا ،رضوان الہام جس کی شادی 17سال کی عمر میں ہی ماریہ بیگم سےہو جاتی ہے اور اِس کے دو بیٹے ہوتے ہےایک کا نام ہارون اور دوسرے کا نام صائم ہوتا ہے تیسرا بیٹا، اعظم الہام ،جس کی کچھ ہی مہینوں میں اسرا بیگم سے شادی ہونے والی ہوتی ہے اور چوتھی بیٹی، نادیہ الہام، ہوتی جس کے شادی کچھ ہی دنوں میں ثاقب سے ہو چکی ہوتی ہے اور اب باری ہے پانچویں اولاد، زاويارالہام ، یعنی زاوی کی زاوی اپنے بڑے بھائی کے بیٹےہارون کی ہی عمر کا ہوتا ہے رضوان کی شادی کے کچھ ہی دنوں بعدعمرین بیگم کو خوشی کی خبر ملتی جس سے امرین بیگم بہت ہی پریشان ہو جاتی ہیں اور الہام صاحب کو بتاتی ہیں الہام صاحب یہ بات سن کر بہت ہی خوش ہو جاتے ہیں اور امرین بیگم کو کہتے ہے تم ٹینشن نہ لو اللہ نے ہمیں بھوراہپے میں تحفہ دیا ہے اور ہم اس خوبصورت تحفہ کو کیسے ٹھکرا سکتے ہے اور آپ پریشان نہ ہو بلکہ خوشی کی خبر ہے سب کو بتاؤ یہ مت سوچنا کے کوئی کیا سوچے گا کیا نہیں ہمیں بس ایک دوسرے سے مطلب ہونا چاہیے اور پھر جب اللہ راضی تو خوش رھے گا یہ بندہ اضافی الہام صاحب اپنی بیگم کے پیٹ کی جانب دیکھتے ہوے کہتے ہے اور پھر الہام صاحب کی اس بات پر کہا امرین بیگم اُداس ہوتی ہیں اور کہا ایک دم سے کھلکھلا اٹھتی ہے جب یہ بات گھر والوں کو پتہ چلتی ہیں تو سب ہی خوش بھی ہوتے ہیں اور اپنی عزت کے بارے میں بھی سوچتے ہیں کے کوئی سنے گا تو کیا کہے گا کے بھوراهپے میں بھی عشق پھوٹ رہیے ہیں لیکن کوئی یہ بات جاکر امرین بیگم اور الہام صاحب کو نہیں کہتا بلکہ ایک دوسرے کو ہی کہے جاتے ہیں جب یہ خبر رضوان کو جاتی ہیں تو اُسے فوراً ہی غصّہ آجاتا ہے اور اپنے ماں باپ کے کمرے کے باہر کھڑا ہوکر غصے میں انکو آواز لگاتا ہیں امی ابو باہر ائے ذرا الہام صاحب فوراً ہی آٹھ کر باہر آتے ہے، ہاں، اور بولتےہے یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے رضوان تم بھول گئے ہو کے تم کس کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایسے چِلّا رہے ہو رضوان کی آواز سُن کر امرین بیگم بھی آجاتی ہے اور ساتھ ہی شورو گول ہونے کی وجہ سے ماریہ بیگم اور اعظم بھی آجاتے ہیں سب لوگ پریشان ہو کر دیکھ رھے ہوتے ہیں جبکہ امرین بیگم رو رہی ہوتی ہے
💫💫🌹🥀🥀❤️❤️❤️❤️❤️
ابو میں تماشا نہیں لگا رہا آپ لگا رھے ہے معذرت ابو لیکن جس عمر میں آپکو دادا بننا تھا آپ اُس عمر میں باپ بن گئے ہے ارے لوگ کیا سوچے گے کیا بولے گے ہمارے بارے میں کم سے کم اپکو اپنی عزت کا خیال نہیں تو ہماری عزت کا ہی خیال کرلے آپکو ضرورت ہی کیا ہے یہ سب کرنے کی آپکی اس حرکت نے ہمیں شرمندہ ہی کر وا دیا ابو اس سے پہلے کسی اور کو پتہ لگےآپ اس بات کو ابھی کے ابھی یہی ختم کرے میں کوئی اور تماشا برداشت نہیں کر سکتا رضوان غصے میں کیا کیا بول جاتاہے اُسے اِس کا اندازہ ہی نہیں لگتااور پھر ایک دم سے زور دار ٹھپیر کی آواز پورے گھر میں گونجتی ہے جو الہام صاحب رضوان کے موں پر جھڑتے ہے تیری ہمت کسے ہوئی بکواس کرنے کی کب سےسنے جارہا ہو تُو بھول گیا ہیں کے تو کس سے بات کر رہا ہیں اگر نہیں پتہ تو میں بتا دیتا ہو تو اپنے باپ سے بات کر رہا ہے اور وہ بھی وہ باپ جس نے اپنی ساری زندگی تم لوگو کو پالنے میں لگا دی وہ باپ جس نے تمہارے آگے اپنی خوشی نہیں دیکھی تمہارے آگے اپنی تکلیف کو کچھ نہیں سمجھآ وہ ماں جس کو تو آنسواؤ سے رولا رہا ہے اس نے تیرے خاطر اپنی نیندے خراب کی ہیں راتو کو اُٹھ اُٹھ کر اور آج تو اُن سے بات کرنے کا لہجہ ہی بھول گیا انکو تکلیف ہو گی یا نہیں یہ بھی نہیں سوچا اور کس عزت کی بات کر رہا ہے تو وہ جو میرے کر کے تم سب لوگو کو ملی ہے میرے بغیر تم لوگو کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے کیا سمجھتا ہے تو خود کو کہیں کا وزیر اعلیٰ ہے بادشاہ ہے کہیں کا جو تجھے اپنی عزت کی اتنی پرواہ ہے الہام صاحب اپنی اس بات پر زور دیتے ہوے غصے میں بولتے ہے جبکہ رضوان چُپ ہی رہتا ہے لیکن ہوتا غصّے میں ہی ہے کے اچانک الہام صاحب فوراً ہی رضوان کا ہاتھ پکر کر ایسے دھکا دیتے ہوئے گھر سے نکلنے کا کہتے ہے ابو یہ کیا کر رھے ہو آپ مجھے گھر سے نکل رھے ہو آپ میں آپکا بڑا بیٹا ہو اس گھر کا پہلا بیٹا جس کا اس گھر پر پہلا حق بنتا ہے رضوان اپنے باپ کو حیرانی میں دیکھتا ہوا بولتا ہے
💫🥀💫💫💫💫💫🥀
ارے جا یہاں سے جس کو اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنی عزت پیاری ہے اور وہ جو ملی بھی اپنے ماں باپ کے کر کے ہی ہے اُسے میں اب بھی اپنا بیٹا سمجھو کیا تونے ہمیں سمجھا جو اتنی بڑی بات اپنے ہی ہونے والے بہن بھائی کے لیے سوچی اگر تیرے ساتھ ایسا ہو تو کیا تُو بھی ایسا ہی کارے گا ہاں بول الہام صاحب غصے میں رضوان کی طرف دیکھتے ہوے بولتے ہے
رضوان اپنے ابو کی طرف دیکھتا ہے جبکہ اعظم بس پریشانی میں دیکھ رھا ہوتا ہے اور امرین بیگم اپنے شوہر اور بیٹے کو اس طرح لڑتا ہوا دیکھ کر بہت رو رہی ہوتی ہے جبکہ ماریہ کو اپنی طبیعت خراب خراب سی محسوس ہوتی ہے اور باپ بیٹے کو دیکھتے دیکھتے بےہوش ہو جاتی ہے جب سب گھر والے یہ دیکھتے ہیں تو فوراً پریشان ہو جاتے ہیں اور ماریہ کو آواز دیتے جبکہ رضوان فوراً بھاگتا ہوا ماریہ کی طرف اتا ہے اور اسیے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اعظم فوراً ہی اپنی بھابھی کے لیے پانی کا گلاس لاتا ہے اور رضوان کو دیتا ہے رضوان فوراً ہی ماریہ پر پانی کے چھینٹے ڈالتا ہے اور امرین بیگم ماریہ کے پاؤں کے پاس بیٹھی ہوئی اسے اٹھا رہی ہو تی ہے جبکہ الہام صاحب ٹینیشن میں سب دیکھ رھے ہوتے ہے پانی کے چھینٹے پرنے سے ماریہ کو ہوش آجاتا ہے پھر رضوان اُسے پانی پلاتا ہے امرین بیگم اور رضوان اُسے اٹھا کر کمرے میں لے جاتے ہے الہام صاحب اعظم کو ڈاکٹر کو بولانے کا کہتا ہے اور اعظم فوراً ہی ڈاکٹر کو لینے چلا جاتا ہے تھوڑی دیر بعد جب لیڈی ڈاکٹر اتی ہے تو ماریہ کا چیک اپ کرتی ہے اور امرین بیگم کو بولتی ہیں مبارک ہو یہ ماں بننے والی ہے جیتنا ہو سکے انکا خیال رکھے اور کسی بھی قسم کی کوئی ٹینشن نہ دے اور کھانے کا خیال رکھے جب امرین بیگم اور ماریہ یہ بات سنتی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہے اور ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں امرین بیگم فوراً ہی ماریہ کو گلے لگا لیتی ہے اور اُن کی پیشانی کو چومتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے مبارک ہو بیٹا اب رضوان اور ہم سب نے مل کر تمہارا بہت خیال رکھنا ہیں اچھا، ماریہ بھی مسکراتی ہے اور بولتی ہےجی امی ٹھیک ہے ڈاکٹر جب چلی جاتی ہیں تو رضوان پریشانی میں کمرے میں اتا ہے اور پوچھتا ہے کیا کہا ڈاکٹر نے امرین بیگم فوراً ہی بولتی ہے ڈاکٹر نے کہا کہ مبارک ہو آپ دادی بننے والی ہے یعنی میرا بیٹا باپ بن نے والا ہے یہ سن کر رضوان بہت خوش ہوتا ہے اور اپنی ماں کو گلے لگا لیتا ہے اور ان سے معافی بھی مانگتا ہے مجھے معاف کردے امی اور اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکرانے لگتا ہے پھر ساتھ ہی اُسے اپنے باپ سے کی گئی بتمیزی کا احساس ہوتا ہے اور فوراً ہی کمرے سے باہر جا کر بھاگتا ہوا اپنے باپ یعنی الہام صاحب کے پاس جاتا ہے اور گلے لگا کر کہتا ہے مجھے معاف کردے ابو مجھے نہیں پتہ تھاباپ بننے کا احساس اتنا پیارا ہوتا ہے مجھے اس کا اندازہ ہوگیا ہے مجھے معاف کردے ابو آپ بڑی مہربانی ہوگی الہام صاحب اس بات پر خوش بھی بہت ہوتے ہے لیکن ظاہر نہیں کرواتےاور طنزیہ مسکراہٹ سے کہتے ہے بیٹا معاف تو کر دیا مینے تیرا باپ ہو نہ اس لیے ورنہ اج تُجھے یہ خوش نہ ملتی نہ تو تُو کبھی مُجھسے معافی نہ مانگتا اور نہ اپنی غلطی کو مانتا خیر اللہ تجھے ہدایت دے اور تُجھے صالحہ اولاد دے آمین
الہام صاحب آمین پر زور دیتے ہوئے بولتے ہے جبکہ آنکھوں میں غصّہ اور بےبسی بھی ہوتی ہے تو اپنے مجھے معاف کر دیا رضوان الہام صاحب سے پوچھتا ہے ہاں کر دیا معاف، شکریہ ابو رضوان ایک بار پھر الہام صاحب کو گلے لگاتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے جبکہ تھوڑے فاصلے سے دور اعظم کھڑا یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے اور رضوان کی بات سے خوش ہو کر اپنے ابو کے پاس اتا ہے اور بولتا ہے ابو مبارک ہو میں بہت خوش ہو میں چاچو بننے والا ہو نہ اور بھائی بھی آپ پریشان نہ ہو میں یہ سب نہیں سوچتا بس میں یہ سوچتا ہو کے میرے گھر والے ہمیشہ خوش رھے جب میں جمعے کی نماز پڑھنے جاتا ہو نہ تب بھی یہ دعا کرتا ہوں کہ میرے گھر والے ہمیشہ خوش رھے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہ ائے
لیکن ابوبھائی نے مجھے گلےکیوں نہیں لگایا مجھے نہیں بتایا میرے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہے بھائی اعظم اُداس ہو کر بولتا ہےایسے میں جہاں الہام صاحب غصے میں تھے اعظم کو دیکھ کر اور اس کی بات سن کر مسکرانے لگتے ہے اور اعظم کو گلے لگا کر بولتے ہے بیٹا تُو ہم سب کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے تیرے ہونے سے مجھے احساس ہوتا ہے کے ایک بیٹا اگر ایسا ہے تو دوسرا تو میراشیر میرا فرمابردار ہے نہ ہم سب تُجھے بہت پیار کرتے ہیں، ہاں ،لیکن ابو بھائی تو نہیں کرتے نہ وہ جب بھی دیکھو غصے میں رہتے ہے میں تو کچھ بولتا بھی نہیں ہو، بیٹا اُس کا مزاج ہیا یسا ہے تُو بھائی کے لیے دعا کیا کراللہ اُسے ہدایت دے اور اپنے لیے بھی کے تُو سمجھدار ہو جائے جلدی سے الہام صاحب مسکرا کر اعظم کو ایسے بولتے ہے اور ساتھ ہی گلے لگا کر پیار بھی کرتے ہے اس وقت اعظم کی عمر 16 سال اور رضوان کی عمر 18 سال ہوتی ہیں اعظم بہت ہی معصوم ہوتا ہے وہ کبھی کیسی کے بارے میں بورا نہیں سوچتا اُس کا دل بلکل فرشتے کی طرح ہوتا ہے
اگر یہ کہا جائے کہ وہ انسان کے روپ میں فرشتہ ہے،ہاں تو کوئی بوری بات نہیں ،ہاں وہ ایسا وہوتا ہے
❤️🥀🥀🥀❣️💞💞💞
جبکہ رضوان جس میں لالچ حسد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے وہ ایک انتہائی گھٹیا انسان ن ہوتاہے وہ ہمیشہ سے ہی یہ بات سوچتا ہے کے ہم دو بھائی ہے اگر اعظمم سے پیار ہی پیار میں یہ جائیداد مانگو گا تو وہ خوشی خوشی میرے نام کردے گا کیوں کہ یہ انتہائی بیوقوف انسان اور بہنوں کا کیا تھوڑا سا پیار دکھاؤ گا وہ بھی میری طرف، اور ماں باپ بھی صدا کس کے سلامت رہتے ہے اپنے نئی بہن ،بھائی کے آنے کی خوشی کا سُن کر بھی رضوان اِس لیے آ گ بگولا ہوا تھا کے اگر لڑکا ہوا تو کہیں میری اِس جائیداد پر قبضہ نہ ہو جائے اس لیے ابھی جاؤ گا لڑائی ڈالو گا تو یہ معاملہ یہی ختم ہوجائیں گاجبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا الہام صاحب اپنے بیٹے کی اس عادت سے اچھی طرح سے واقف تھے اور اعظم کے لیے پریشان بھی ہوتے تھے اور کبھی کبھی یہ بات اعظم کو سمجھاتے بھی تھے لیکن اعظم پہلے سُنتا اور پھر ایسا ہی ہو جاتا تھا جسے اُسے اپنے بھائی پر یقین ہو کہ میرا بھائی ایسا نہیں کرے گا ابو کو غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے اورہر بار ہنس کر بات ٹال دیتا تھا رضوان اپنے ابو کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آجاتا ہے اتنے میں امرین بیگم بھی کمرے سے چلی جاتی ہے رضوان آتے ساتھ ہی اپنی بیوی کو دیکھتا ہے اور خوشی سے اس کا ماتھا چوم لیتا ہے اج میں بہت خوش ہو جو تم ٹائم پر بےہوش ہو گئی ورنہ میرے ہاتھوں آج تو یہ جائیداد چلی جانی تھی اور ہم سڑک پر آجاتے فقیرِ ہو جاتے ،ہم تمہارا بہت شکریہ بیوی ہو تُو تمہارے جیسی ورنہ نہ ہو رضوان خوشی میں یہ ساری باتے ماریہ کو بولتا ہے ماریہ جب یہ بات سنتی ہے تو بولتی ہے تو کیا آپ ہمارے بچے کے لیے خوش نہیں تھے رضوان، ارے تھا خوش مگر اتنا نہیں جیتنا اس گھر میں رہنے کے لئے ہوا ہو رضوان بولتا ہے کہ، کیا مطلب ماریہ رضوان کو دیکھتے ہوے بولتی ہے آپکا ،مطلب یہ کے میں ابھی بہت چھوٹا ہو میں بچے کی زمیداری نہیں لے سکتا تھا اگر کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں تمہیں یہ مشورہ دیتا کے اُسے ختم کر وا دو لیکن میرے بچے نے ایسے وقت میں انٹری ماری ہے کے پوچھو ہی مت رضوان یہ بات کہہ کر اپنی لالچی مسکراہٹ ماریہ کو دیکھاتا ہے اور ماریہ شوکڈ کی حالت میں یہ سب باتے سُن رہی ہوتی ہے ویسے تو میں شادی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن پھر بھی زبردستی سے کروادیگئی میری، کہا میں پانچ جماعت پڑھا لڑکا اور کہا تم ان پڑھ جّاہل لڑکی خیر اب تم میرے نکاح میں ا ہی گئی ہو تو مجھے اب کوئی مسئلہ نہیں ،ہاں بس مُجھسے دب کر رہنا اور بچے کی ماں بن گئی ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر رکھ کے ناچو تمھی اوقات میں رہنا اپنی، لیکن ہماری شادی کو ایک سال ہوگیا ہے اپنے تب ایسا کیو نہیں بتایا تب سے لے کر میں اب تک بس یہ ہی سوچتی رہی کے شائد مُجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے جیسے میں بنا پوچھے اُسے صحیح کرنے کی کوشش کرتی رہی تاکہ آپ میرے ساتھ ٹھیک ہو جائے ہر چیز آپ کی وقت پر کرتی رہی لیکن اپنے یہ نہیں بتایا کہ آپکی شادی مرضی سے نہیں ہوئی ماریہ بیگم انکھوں میں آنسو لائے رضوان کو کہتی ہے ،چلو اب تو پتہ چل گیا نہ کے تم میری پسند نہیں ہو پہلے میں تمہیں اس لیے برداشت کیا کے تم مجھے وارث دو گی تاکہ ابو میرے نام یہ جائیداد کردے اور وہ تم نے مجھے دے دیا رضوان طنزیہ ہنستا ہے ماریہ کو یہ بات سُن کر بہت دکھ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آنکھوں میں پانی بھی ہوتا ہے ماریہ کو اس وقت کُچھ ٹائم پہلے والا پرواہ کرنے والا رضوان نہیں بلکے ایک مکار اور چال باز انسان نظر آیا تھا ماریہ ایک بہت ہی اچھی اور معصوم سی لڑکی ہوتی ہے اُسے چالاکیاں اور مکاریاں نہیں اتی تھی بےشک پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن سلجھی ہوئی لڑکی تھی ماریہ یہ سوچتی ہے کے کیا اب میرا نصیب ایسا ہی رہے گا میں اپنے شوہر کی محبت سے ایسے ہی محروم رہو گی اور پھر ماریہ اپنے رب سے روتے ہوے اپنے اچھے نصیب اور شوہر کی محبت کے لیے دعا مانگتی ہے
❤️🥀❣️❣️💞💞❤️🥀❣️💞💞
ویسے نام تو بہت پیارا رکھا ہے اپنے ہمارے بیٹےکا، افنان، مجھے سچ میں بہت زیادہ پسند آیا کیا اپ نے پہلے سے ہی سوچ کر رکھا تھا افنان کے بابا جیا مسکراتی ہوئی اپنے شوہر سے بولتی ہے ،اچھا کیا ہو میں دوبارہ بولو میر صاحب ہنستے ہوے اپنی بیوی سے بولتے ہے،مینے کہا افنان کے بابا، پھر سے بولو افنان کے بابا افنان کے بابا ،اب خوش جیا خوش ہو کر بولتی ہے ،ہاں خوش نہیں بلکہ بہت زیادہ خوش ہو اللہ نے ہمیں 3 سال بعد اولاد کی خوشی سے نوازا ہے ورنہ مینے تو اُمید ہی چھوڑ دی تھی میر صاحب یہ بولتے ہے اور اپنی گود میں لیے ہوئے اپنے بچے یعنی افنان سے پیار کرنے لگتے ہے جیا بھی یہ دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور بولتی ہے ،ہاں یقین تو مجھے بھی نہیں ہو رہا کے جس اولاد کے لیے ہم روتے تھے اللہ سے دعائیں کرتے تھے اج وہ ہمارے سامنے ہماری گود میں ہے ہمارا اللہ ہم سے کتنی محبت کرتاہے وہ کتنا رحمان رحیم ہے وہ اپنے بندوں کا امتحان تو لیتا ہے لیکن پھر امتحان کے بعد اسکی اوقات سے بڑھ کر بھی نوازتا ہے میری اتنی اوقات تو نہیں تھی جیتنا میرے اللہ نے مجھے نواز دیا اتنی محبت کرنے والا شوہر جو مجھے اتنی محبت دیتا ہیں مُجھ سے اتنا پیارکرتا ہے اور دوسری طرفاولاد کااتنا خوبصورت تحفہ میں اپنے پروردگار کا جیتنا شکر کرو اتنا ہی کم ہے اب لگتا ہے میری دُنیا مکمل ہو گئی ہے اب مجھے کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں جیا بہت خوش ہوتی ہے اور میر صاحب جیا کی خوشی کو دیکھ کران پر وری وری جاتے ہے اور بولتے ہے اچھا کوئی رات کو تو مجھےیہ کہہ رہا تھا کے اب اللہ صرف مجھے ایک بیٹی سے بھی نوازدے میری فیملی کمپلیٹ ہو جائے گی میر صاحب اپنی ہنسی چھپاتے ہووے بولتے ہے تو ساتھ ہی جیا بھی بولتی ہے، ہاں تو کیا ہوا میاں جی بندہ بشر ہے کبھی بھی اس کی خواہشیں ختم ہی نہیں ہوتی انسان ختم ہو جاتا ہے
نہیں نہیں اب تم اپنی بات سے مُکر رہی ہو میر صاحب جیا کو تنگ کرتے ہوئے بولتے ہے نہیں جی سچ بول رہی ہو میں جس مرضی سے پوچھ لیں ارے بھئی کیوں پوچھ لو صحیح بول رہی ہو میں کبھی تمہارے کہے کو جھوٹا بول سکتا ہو کیا بیگم صاحبہ، آپ مجھے سچا بھی کب کہتے ہو جب میں آپکو کہتی ہو کے مینے کھانا کھا لیا کھا لیا تب بھی آپ کہتے ہو کے تم جھوٹ بول رہی ہو مجھے تم پر یقین نہیں میں خود ہی تم کو کھلاؤ گا کھانا تب کیا ہوتا ہے جیا معصوم بچوں کی طرح میر صاحب کو بولتی ہے ، ہاں تو تمہیں پتہ ہی ہے کے جب تک میں تم کو اپنے ہاتھو سے کھانا نہ خلادو مجھے سکون ہی نہیں مِلتا اب کیا اپنی اتنی پیاری بیگم کی فکر کرنا بھی گناہ ہے، کیا میں پیاری ہو کیا سچ میں جیا بچوں کی طرح خوش ہو کر اور اکسائٹڈ ہو کر میر صاحب سے پوچھتی ہے ،ہاں بِلکُل میری بیوی سب سے خوبصورت اور سب سے پیاری ہے جیا اس بات پر ایک دم خوش ہو جاتی ہے اور اتنے میں ہی افنان رونا شروع کر دیتا ہے جیا افنان کوجتنا چُپ کر وا رہی ہوتی ہے وہ اتنا ہی اور بھی رونے لگ جاتا ہے جیا پریشان ہو کر اپنے شوہر سے بولتی ہے یہ کیوں نہیں چُپ ہو رہا ہے جبکہ مینے اس کا پیمپر بھی اُتار دیا ہے
، میر صاحب بولتے ہے ارے تم سے چُپ نہیں ہوگا یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے لاؤ مجھے دو میں چُپ کر وا دیتا ہو میر صاحب جیسے ہی افنان کو گود میں لیتے ہے افنان اُسی ٹائم ہی میر صاحب کی گود میں سو سو کر دیتا ہے اور میر صاحب پہلے تو حیران ہوتے ہے اور پھر اپنی بیگم کی طرف دیکھتے ہے ۔جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی ہوتی ہے اور پھر اپنے شہزادے کو دیکھتے ہے جو اب بِلکُل خاموش ہو جاتا ہے جیسے کبھی رویا ہی نہ ہو دونو ماں بیٹے کو دیکھ کر میر صاحب بھی ہنسنے لگتے ہے اور دونوں کو گلے لگا لیتے ہے
🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰
